1958,s Marshall law black day in pakistani history

1958 کا مارشل لا: پاکستانی تاریخ کی ’تاریک ترین‘ ر


ایوب خان کی آپ بیتی کا اردو ترجمہ مشہور افسانہ نگار غلام عباس نے کیا تھا
سات اکتوبر 1958 کو لگائے جانے والے پاکستان کے پہلے مارشل لا کے 60 سال مکمل ہونے کے موقعے پر خصوصی تحریر
جنرل ایوب خان اپنی آپ بیتی فرینڈز ناٹ ماسٹرز میں لکھتے ہیں:
'میں پانچ اکتوبر کو کراچی پہنچا اور سیدھا جنرل اسکندر مرزا سے ملنے گیا۔ وہ لان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ تلخ، متفکر اور مایوس۔ میں نے پوچھا۔
'کیا آپ نے اچھی طرح سوچ بچار کر لیا ہے سر؟'
'ہاں۔'
'کیا اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں؟'
'نہیں۔ اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں۔'
'میں نے سوچا کہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ حالات ایسے موڑ تک پہنچ گئے ہیں کہ یہ سخت قدم اٹھانا پڑ رہا ہے۔ لیکن اس سے کوئی مفر نہیں تھا۔ یہ ملک بچانے کی آخری کوشش تھی۔'
اس گفتگو کے دو دن بعد سات اور آٹھ اکتوبر 1958 کی درمیانی شب پاکستان کے پہلے صدر (جنرل) اسکندر مرزا نے آئین معطل، اسمبلیاں تحلیل اور سیاسی جماعتیں کالعدم قرار دے کر ملک کی تاریخ کا پہلا مارشل لا لگا دیا اور اس وقت کے آرمی چیف ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔
چوں کہ پہلی پہلی کوشش تھی، اس لیے اس اولین مارشل لا میں 'میرے عزیز ہم وطنو' وغیرہ کے عنوان سے ریڈیو (ٹی وی تو خیر ابھی آیا ہی نہیں تھا) پر کوئی تقریر نہیں ہوئی۔ بس ٹائپ رائٹر پر لکھا ایک فیصلہ رات کے ساڑھے دس بجے سائیکلوسٹائل کر کے اخباروں کے دفتروں اور سفارت خانوں کو بھیج دیا گیا۔
البتہ یہ ضرور ہوا کہ چند فوجی دستے احتیاطاً ریڈیو پاکستان اور ٹیلی گراف کی عمارت کو گھیرے میں لینے کے لیے بھیج دیے گئے تاکہ سند رہیں اور بوقتِ ضرورت کام آئیں۔

 اسکندر مرزا
مبصرین کی اکثریت کے مطابق یہی وہ 'ناگزیر' فیصلہ تھا جس نے ملک پر ایسی سیاہ رات طاری کر دی جس کے کالے سائے آج 60 سال بعد بھی پوری طرح سے نہیں چھٹ سکے ہیں۔
اسکندر مرزا کے تحریر کردہ فیصلے کی سائیکلوسٹائل کاپیاں آنے والی عشروں میں بار بار تقسیم ہوتی رہیں، بس کردار بدلتے رہے، کہانی وہی پرانی رہی۔
مثال کے طور پر دیکھیے کہ اس رات تقسیم ہونے والے فیصلے میں رقم تھا:
'میں پچھلے دو سال سے شدید تشویش کے عالم میں دیکھ رہا ہوں کہ ملک میں طاقت کی بےرحم رسہ کشی جاری ہے، بدعنوانی اور ہمارے محبِ وطن، سادہ، محنتی اور ایمان دار عوام کے استحصال کا بازار گرم ہے، رکھ رکھاؤ کا فقدان ہے اور اسلام کو سیاسی مقاصد کے لیے آلۂ کار بنا دیا گیا ہے۔‘
'سیاسی جماعتوں کی ذہنیت اس درجہ گر چکی ہے کہ مجھے یقین نہیں رہا کہ انتخابات سے موجودہ داخلی انتشار بہتر ہو گا اور ہم ایسی مستحکم حکومت بنا پائیں گے جو ہمیں آج درپیش لاتعداد اور پیچیدہ مسائل حل کر سکے گی۔ ہمارے لیے چاند سے نئے لوگ نہیں آئیں گے۔`
'یہی لوگ جنھوں نے پاکستان کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے، اپنے مقاصد کے لیے انتخابات میں بھی دھاندلی سے باز نہیں آئیں گے۔ ۔۔ یہ لوگ واپس آ کر بھی وہی ہتھکنڈے استعمال کریں گے جنھیں استعمال کر کے انھوں نے جمہوریت کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔'
  پاکستان کے تیسرے وزیرِ اعظم چوہدری محمد علی، جو ملک کا پہلا آئین بنا کر بھی اسکندر مرزا کے عتاب سے نہ بچ سکے
آپ نے دیکھا ہو گا کہ بعد میں آنے والے مارشل لاز میں یہی سکرپٹ سرقہ ہو ہو کر استعمال ہوتا رہا۔
اسکندر مرزا کے بقول جمہوریت مذاق بن کر رہ گئی ہے، لیکن اصل مذاق یہ تھا کہ جب یہ مارشل لا لگا، اس کے تین ماہ بعد انتخابات طے تھے۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ اس وقت کے وزیرِ اعظم ملک فیروز خان نون کا حکومتی اتحاد جیت جائے گا، اور یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ شاید اس کے قمری نہیں بلکہ زمینی ارکان صدر اسکندر مرزا کو دوبارہ صدر منتخب نہ کریں۔ چنانچہ صدرِ مملکت کو عافیت اسی میں دکھائی دی کہ جمہوریت ہی کو راکٹ میں بٹھا کر خلا میں روانہ کر دیں۔
اس کی تائید بیرونی ذرائع سے بھی ہوتی ہے۔ مارشل لا کے نفاذ سے کچھ ہی عرصہ قبل برطانوی ہائی کمشنر سر الیگزینڈر سائمن نے اپنی حکومت کو جو خفیہ مراسلہ بھیجا اس میں درج تھا کہ صدرِ پاکستان نے انھیں بتایا ہے کہ اگر انتخابات کے بعد تشکیل پانے والی حکومت میں ناپسندیدہ عناصر موجود ہوئے تو وہ مداخلت کریں گے۔
سر الیگزینڈر نے اسی مراسلے میں لکھا کہ 'ناپسندیدہ عناصر' سے مراد وہ ارکانِ اسمبلی ہیں جو سکندر مرزا کو دوبارہ صدر بنانے کے لیے ووٹ نہ دیں۔
اسکندر مرزا کو جمہوریت اور آئین کا کس قدر پاس تھا، اس کی ایک مثال ان کی سیکریٹری قدرت اللہ شہاب کی زبانی مل جاتی ہے۔
شہاب اپنی آپ بیتی 'شہاب نامہ' میں لکھتے ہیں کہ 22 ستمبر 1958 کو صدرِ پاکستان اسکندر مرزا نے انھیں بلایا۔ 'ان کے ہاتھ میں پاکستان کے آئین کی ایک جلد انھوں نے اس کتاب کی اشارہ کر کے کہا، 'تم نے اس
ٹریش کو پڑھا ہے؟'
'جس آئین کے تحت حلف اٹھا کر وہ کرسیِ صدارت پر براجمان تھے اس کے متعلق ان کی زبان سے ٹریش کا لفظ سن کر میرا منھ کھلے کا کھلا رہ گیا۔'
23 مارچ 1956 کو منظور ہونے والے جس آئین کو مرزا صاحب نے کوڑا قرار دیا تھا وہ آئین پاکستان کی دستور اسمبلی نے انھی کی ولولہ انگیز قیادت میں تیار کیا تھا۔ اس آئین کے تحت پاکستان برطانیۂ عظمیٰ کی ڈومینین سے نکل کر ایک خودمختار ملک کی حیثت سے ابھرا تھا اور اسی آئین نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا تھا۔
لیکن ایک اڑچن یہ تھی کہ اس آئین کے تحت صدر کا عہدہ وزیرِ اعظم سے برتر قرار دیا گیا تھا اور اس میں 58 دو بی قسم کی کچھ ایسی شق ڈالی گئی تھی کہ صدر وزیرِ اعظم کو کسی بھی وقت یک بینی دو گوش نکال باہر کر سکتے تھے۔

(To be continue...........

Comments

Popular posts from this blog

7 Sky names and colours in urdu

Laziest countries in the world detail in urdu

Information about Fork ...