History of Kashir ( part 2 )مہاراجہ کا کشمیر الحاق معتبر یا مشکوک ؟

وی پی مینن ،جو بھارت سرکار کے ریاستوں سے متعلق امور کے محکمے کے سربرا ہ تھے اورجن کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ انہوں نے دستاویز الحاق پر مہاراجہ کے دستخط حاصل کئے ،اپنی کتابIntegration of Statesمیں رقمطراز ہیںکہ وہ اس دن یعنی26اکتوبر کو دلی سے بذریعہ ہوائی جہاز جموں آئے اور جموں میں دستاویز الحاق پر مہاراجہ کے دستخط لئے اور واپس دلی چلے گئے تاہم ان کا یہ دعوی کسی بھی صحیح قرار نہیں دیا جاسکتا ہے کیونکہ 26اکتوبر کی صبح ہی مہاراجہ اپنے خاندان کے ساتھ کشمیر چھوڑ کر جموں کی جانب روانہ ہوئے اور جموں سرینگر شاہراہ ،جسے ان دنوں بانہال کارٹ روڈ کہاجاتا تھا ،کی حالت دیکھتے ہوئے اور ان عینی شاہدین ،جنہوں نے مہاراجہ کے کاررواں کو راستے میں جاتے ہوئے دیکھا ،کے بیانات کو مدنظر رکھتے ہوئے مہاراجہ کیلئے شام7بجے سے قبل جموں پہنچنا ناممکن تھااور چونکہ ان دنوں جموں طیران گاہ پر شبانہ پرواز بھرنے اور اترنے کی سہولیت میسر نہ تھی تو اس کو دیکھتے ہوئے یہ ناممکنات میں سے ہے کہ کوئی شخص دلی سے جموں آئے اور شام کو جموں میں مہاراجہ کے دستخط لیکر رات کو ہی واپس دلی چلاجائے ۔اس سے مینن کے دعوے کی ہوا ہی نکل جاتی ہے ۔
اتنا ہی نہیں،برطانوی ہائی کمیشن کے ریکارڈLP&S/13/1845b,ff 283-95-India office recordsکے مطابق اس وقت کے بر طانوی ڈپٹی ہائی کمشنربرائے بھارت ،الیگزنڈرا سائمن 26اکتوبرکو دلی میں مینن سے ملے اور انہیں بتایا گیا کہ وہ27اکتوبر کو جموں جارہے ہیں۔وکٹوریہ سکو فیلڈنے اپنی کتابKashmir in the Crossfireکے صفحہ نمبر149پر سائمن کی نجی ڈائری سے نقل کیا ہے کہ 26 اکتوبر کے روز وی پی مینن کیساتھ ان کی ملاقات شام کو ہوئی ، سائمن دن کے3:30بجے دہلی کے ولنگٹن ائر پورٹ پر وی پی مینن سے ملاقات کی غرض سے جاتے ہیں، وہاں انہیں یہ بتا یا جا تا ہے کہ جہاز پالم سے روانہ ہونے والا ہے ۔پالم ہوائی اڈے پر وہ وی پی مینن کو دہلی شہر کی جانب واپسی کیلئے تیار پاتے ہیں۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے ہے کہ دیر ہونے کے سبب ہوائی پرواز معطل کر لی گئی ہے۔ دونوں 5 بجے ملنے کے وعدے کو ساتھ رخصت ہوتے ہیں اور جب دونوں وقت مقررہ پہ ملتے ہیں تو مینن انہیں یہ بتاتے ہیں کہ وہ اب صبح جموں جائیں گے اوردوپہرتک ان کی واپسی ہو گی ۔ سکوفیلڈکے مطابق سائمن کی ڈائری میں جومنعکس ہوا ہے وہ ا یک ٹاپ سیکرٹ خط میں لندن دولت مشترکہ کے سر براہ آ رچی بالڈ کارٹر کے نام اس اطلاع کے ساتھ روانہ ہوتا ہے کہ جب ا نہوں نے 27 اکتوبر کو دن کے 4بجے مینن کے دفترفون کیا تو انہیں بتایا گیا کہ ابھی وہ جموں سے واپس نہیں آئے ہیں ۔اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ الحاق پر دستخط26اکتوبر کو نہیں ہوئے ہیں۔
اتنا ہی نہیں ،اس وقت کے کشمیر کے وزیراعظم مہر چند مہاجن اپنی سوانح حیات Looking backکے صفحہ نمبر154پر لکھتے ہیں کہ27اکتوبر کی صبح 9بجے کے قریب سرینگر کے ائر ڈروم آفیسر کی جانب سے یہ اطلاع پانے ،کہ بھارتی افواج سرینگر ائر پورٹ پر لینڈ کرچکی ہیں ،کے بعد وہ اور مینن 27اکتوبر کو جموں چلے گئے جہاں مہاراجہ کے شاہی محل پر کچھ تبالہ خیال کے بعد دستاویزات پرمہاراجہ نے دستخط کئے جو مینن اپنے ساتھ دلی واپس لے گئے ۔
اس کے بعد اگر کوئی شک و شبہ رہتا ہے تو وہ 27اکتوبر کو پنڈت جواہر لعل نہرو کی جانب سے مہاراجہ کو لکھے گئے خط سے دورہوجاتا ہے جس میں وہ لکھتے ہیںشری وی پی مینن جموں سے آج کی شام واپس لوٹے اور مجھے وہاں ہوئی بات چیت سے آگاہ کیا ،انہوں نے مجھے دستاویز الحاق بھی دی جس پر آپ کے دستخط ہیں (وکٹوریہ سکو فیلڈKashmir in the Crossfire صفحہ نمبر149)۔
اے جی نورانی نے 24مارچ1995کے فرنٹ لائن رسالہ کے شمارے میں کشمیر الحاق کے تعلق سے سردار پٹیل کی سیکریٹری اور بیٹی منیبن پٹیل کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کے والد نے 27اکتوبر کو دلی ائرپورٹ پر وی پی مینن کا استقبال کیا نہ کہ26اکتوبر کو ،جیسا کہ کہاجارہا ہے ۔ان شواہد سے ثابت ہوجاتا ہے کہ دستاویز الحاق پر 26اکتوبر کودستخط ہوئے ہی نہیں ہیں اور اگر کبھی ہوئے بھی ہیں تو وہ27اکتوبر کو کشمیر میں بھارتی افواج کے داخلہ کے بعد ہوئے ہیں۔
این سٹیفنس اپنی کتاب پاکستان صفحہ:203میں لارڈماونٹ بیٹن کے ساتھ ایک میٹنگ کے حوالے سے لکھتے ہیںکہ26 اکتوبر کی شام وہ مجھ سے ملے اور بتایا کہ الحاق کے کاغذات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے جس کا مطلب سٹیفنس یہ لیتے ہیں کہ ابھی دستخط ہوئے ہی نہیں۔اس کے علاوہ لندن سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار لنڈن ٹائمزمیں28اکتوبرکویہ رپورٹ شائع ہوئی کہ مہر چند مہاجن اور وی پی مینن جموں کیلئے روانہ ہوئے جہاں کشمیر دربار لگا ہوا ہے تاکہ وہ الحاق کی تصدیق کروا سکیں ۔اس کا یہ مطلب یہ ہے کہ روانگی 27 اکتوبر کی تھی

لیکن یہ عیاں ہے کہ رام لال باترا کے پاس ایسی کوئی دستاویز نہیں تھی جس پر ہند کشمیر الحاق پہ مہاراجہ ہری سنگھ کے دستخط کی تعبیر دی جائی۔
الحاق کے حوالے سے ہی ایک اوردلیل یہ پیش کی جارہی ہے کہ بھارتی افواج 22اکتوبر کو کشمیر پر قبائلی حملہ کے بعد مدد کیلئے طلب کی گئی تھیں تاہم یہ بھی حقیقت سے بعید نظر آتا ہے بلکہ تاریخی حقائق کہتے ہیں کہ بچاو آپریشن کے تحت بھارتی حکومت نے پہلے ہی 12سے17اکتوبر1947کے درمیان آرمی کی 50ویں پیرا شو ٹ بریگیڈ کے 4کمانڈو پلاٹون اور پٹیالہ پولیس کے دستے کشمیر بھیج دئے تھے۔اتنا ہی نہیں ،سرینگر ہوائی اڈے کو بھی پہلے ہی ان فورسز نے گھیرے میںلے رکھا تھا ۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ گورنر جنرل لارڈ ماونٹ بیٹن نے پہلے ہی مہاراجہ ہری سنگھ کو ایسے فوجی امداد کی یقین دہائی کرائی تھی ۔
 معروف امریکی و فرانسیسی مصنفین لیری کولنز اور ڈومنیک لیپائرنے اپنی تصنیف آزادی بوقت نصف شب (Freedom at Midnight) کے صفحہ نمبر205میں بیٹن کے جون1947میں دورہ کشمیر کے دوران مہاراجہ کو اس یقین دہانی کے بارے میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے ۔اس کے علاوہ سردار پٹیل کی وزیر دفاع بلدیو سنگھ کے ساتھ مراسلت میں بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فوجی امداد کا منصوبہ بہت پہلے بنایا گیا تھا اور یوں یہ دعوی بھی بے بنیادلگ رہا ہے کہ بھارتی افواج قبائلی حملہ کے ردعمل میں کشمیر میں داخل ہوئیں۔
یہ بھی استدلال پیش کیاجارہا ہے کہ بھارت کے ساتھ کشمیر کا الحاق یقینی بنانے کیلئے صورتحال ایسی بنائی گئی کہ قبائلی حملہ کرایاگیاکیونکہ اس وقت دونوں ممالک کے فوجی سربراہ برطانوی آفیسران تھے جو ماونٹ بیٹن کے معتمد خاص تھے اور ایسا لگ رہا ہے کہ دونوں فوجی سربراہان کے درمیان کوئی مفاہمت تھی

Comments

Popular posts from this blog

7 Sky names and colours in urdu

Laziest countries in the world detail in urdu

Information about Fork ...