مہاراجہ کا کشمیر الحاق معتبر یا مشکوک ؟27 october History of kashmir(part 1)

مہاراجہ کا کشمیر الحاق معتبر یا مشکوک ؟

27اکتوبرہی کے دن 1947میں بھارتی افواج کشمیر میں داخل ہوئی تھیں اور قبائلی جنگجووں کے ساتھ نبرد آزما ہوکر انہیں شکست سے دوچار کردیا تھا۔بھارتی افواج کی کشمیر پر چڑھائی کیلئے اس آزاد ریاست کے مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے26اکتوبر1947کو بھارت کے ساتھ مشروط الحاق کو جواز کے طور پیش کیاجارہا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مہاراجہ کی گزارش پر ہی دستاویز الحاق پر دستخط ہوئے اور ان کے کہنے پر ان کی مدد کیلئے فوج سرینگر کے ہوائی پٹی پر27اکتوبر1947کو اتاری گئی ۔مرکزی حکومت دستاویز الحاق کی حقانیت منوانے کیلئے بہت آگے نکل چکی ہے تاہم بیشتر محققین دستاویز ِ الحاق پر سوال اٹھارہے ہیںاور حقائق پیش کرکے یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں کہ 26اکتوبرکو الحاق نامہ پر دستخط ہوئے ہی نہیں تاہم27اکتوبر کوجب بھارتی فوج کشمیر میں داخل ہوچکی تھی ،تو اس روز دستاویز الحاق پر دستخط کے امکانات بنتے ہیں۔
معروف مصنفہ السٹر لیمب اپنی کتاب کشمیرایک سانحہ کا جنم کے صفحہ نمبر82پر رقمطرازہیں کہ مہاراجہ کے نائب وزیراعظم رام لال باترا 24 اکتوبر کو مہاراجہ ہری سنگھ اوروزیر اعظم مہر چند مہاجن کے خطوط کے ساتھ بذریعہ ہوائی جہاز دہلی روانہ ہوگئے تھے۔اِن خطوط میں بھارت سرکار سے فوجی امداد طلب کی گئی تھی تاہم بقول لیمب باترا کو دہلی میں سرد مہری کا سامنا کرنا پڑاکیونکہ ان خطوط میں شیخ محمدعبداللہ کے بارے میں کوئی ذکر نہیں تھا جب کہ پنڈت نہروشیخ محمد عبداللہ کے رول پر تکیہ کئے ہوئے تھے ۔ان کے نزدیک الحاق کی معنوی تصدیق شیخ محمد عبداللہ کی تائید ہی ہو سکتی تھی ۔نہرو نے سردارپٹیل کو مجبور کیا کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کو بروئے کار لاکر شیخ محمدعبداللہ کی رہائی کی کوشش کریں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوااور 29ستمبر 1947شیخ عبداللہ کی رہائی عمل میں آئی۔
طارف ناز کی کتابSheikh Abdullah, A victim of betrayalمیں موصوف رقمطراز ہیں کہ نئی دہلی میں رام لال باترا نے بھارتی امداد کی درخواست کی، جو قبول نہ ہوئی اور اس کے بعد وی پی مینن اور مہر چند مہاجن طیارے میں سرینگر سے دہلی کی طرف روانہ ہوتے ہیںاور وہاں مدد کے طلبگار ہوتے ہیں، بعد دوپہر تک بھارتی دفاعی کمیٹی ،جس کی سربراہی لارڈ ماونٹ بیٹن کررہے تھے،میںکوئی اتفاق رائے پیدا نہ ہوا کیونکہ مورخین کے مطابق بیٹن اس فوجی امداد کو آزاد ریاست میں فوجی مداخلت سے تعبیر کررہے تھے اور انہیں ڈر تھا کہ اس کا بین الاقوامی سطح پر شدید نوٹس لیاجائے گا تاہم مہاجن نے کہا کہ انہیں حکم ملا ہے کہ بھارت سے امداد نہ ملنے کی صورت میں وہ پاکستان کا رخ کریں جس پر نہرو بپھر گئے۔ شیخ محمد عبداللہ ،جو ایک دوسرے کمرے میں یہ گفتگو سن رہے تھے ،نے ایک پرچی نہرو کو بھیج دی اور ان سے گزارش کی کہ وہ مہاراجہ کی گزارش قبول کرلیں تاکہ قبائلیوں کو واپس دھکیلا جاسکے ،نہرو آمادہ ہوئے۔ امداد کا فیصلہ کر لیاگیا جس کی توثیق بھارتی کابینہ نے کرلی جس کے بعد نہرو نے 25اکتوبر کو مینن کو کرنل سام مانک شاہ اور ایک ائر فورس آفیسر کے ہمراہ کشمیر بھیج دیاتاکہ مہاراجہ کا موڈ دیکھا جاسکے اور جب26 اکتوبر 1947کی صبح کو ہی وی پی مینن اور مہر چند مہاجن طیارے میں سرینگر سے دہلی کی طرف روانہ ہوتے ہیںتو وہاں مینن نے نہرو کو بتایا کہ مہاراجہ پریشانی کی حالت میں ہیں تو انہوں نے مینن کو بتایاکہ وہ شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ مشاورت کے بعد تیار کئے گئے دستاویز الحاق پر دستخط کیلئے مہاراجہ کو تیار کریں۔گوکہ مینن اس مشن میں 27اکتوبر کو کامیاب ہوگئے تاہم اسی دن لارڈ ماونٹ بیٹن نے مہاراجہ کے نام ایک خط لکھ کر انہیں بتایا کہ الحاق عارضی ہے اور اس کی توثیق رائے شماری کے ذریعے کرانی باقی ہے۔
ایک اورمعروف کشمیری مورخ اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر عبدالاحد نے دستاویز الحاق کو فراڈ قرار دیا ہے ۔وہ اپنی کتاب Kashmir-Triumphs & Tragediesکے23ویں باب میں آرکائیوز مواد ،تاریخوں میں قلم زنی اور دستخطوں میں سیاہی کے استعمال سمیت کئی ثبوتوں کے ساتھ یہ واضح کردیتے ہیں کہ الحاق دستاویز کی اعتباریت مشکوک ہے ۔
معروف مغربی مصنفہ السٹر لیمب نے بھی اپنی کتابkashmir-Birth of a Tragedyکے چھٹے باب میں اس دستاویز پر سوالات اٹھائے ہیں ،شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت آج تک دستاویز الحاق کی اصل کاپی عالمی برادری کے سامنے پیش کرنے سے قاصر ہے۔اب جہاں تک اس دعوے کا تعلق ہے کہ دستاویز الحاق پر26اکتوبر1947کو ہی مہاراجہ نے دستخط کئے تھے تویہ دعوی بھی مشکوک نظر آرہا ہے ۔

Comments

Popular posts from this blog

7 Sky names and colours in urdu

Laziest countries in the world detail in urdu

Information about Fork ...