سات آسمانوں کے رنگ اور ان کے نام قرآن کریم کی اکتالیسویں سورۃ فصلت کی آیت نمبر12 میں اللہ سبحانہُ وتعالیٰ فرماتے ہیں۔ فَقَضٰٮهُنَّ سَبۡعَ سَمٰوَاتٍ فِىۡ يَوۡمَيۡنِ وَاَوۡحٰى فِىۡ كُلِّ سَمَآءٍ اَمۡرَهَا ؕ وَزَ يَّـنَّـا السَّمَآءَ الدُّنۡيَا بِمَصَابِيۡحَ ۖ وَحِفۡظًا ؕ ذٰ لِكَ تَقۡدِيۡرُ الۡعَزِيۡزِ الۡعَلِيۡمِ ترجمہ: پھر دو دن میں سات آسمان بنائے اور ہر آسمان میں اس کا حکم بھیجا اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے مزین کیا اور محفوظ رکھا۔ یہ زبردست (اور) خبردار کے (مقرر کئے ہوئے) اندازے ہیں ﴿۱۲﴾ قرآن پاک کی اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان پیدا کئے ہیں، اب چونکہ ہر چیز کا ایک نام ہے تو ان ساتوں آسمانوں کو بھی نام دئے گئے اور الگ الگ رنگوں سے مزین کیا گیا۔ اس سات آسمانوں کے رنگ اور نام یہاں ملاحظہ کیجئے۔ ٭ پہلا آسمان پہلے آسمان کا رقیعہ ہے جو دودھ سے بھی زیادہ سفید ہے ٭ دوسرا آسمان دوسرے آسمان کا نام فیدوم یا ماعون ہے جو ایسے لوہے سے بنا ہے جس سے روشنی کی شعاعیں پھوٹتی ہیں۔ ٭ تیسرا آسمان اس کا نام ملکوت یا ہاریون ہے جو تانبے سے بنا ہے۔ ٭ چوتھا آس
دنیا کے سست ترین ممالک کی فہرست جاری کردی گئی کیلی فورنیا: ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے دنیا بھر کے سُست ترین افراد اور متحرک ترین افراد پر مشتمل ممالک کی فہرست جاری کردی ہے۔ دنیا عجائب خانہ ہے جہاں گلی گلی اور قریہ قریہ حیرت انگیز واقعات اور ناقابل یقین برتاؤ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ معاشرے افراد پر مشتمل ہوتے ہیں اور افراد کا برتاؤ و طرز زندگی قوموں کی پہچان بن جاتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے قوموں کی طرز زندگی اور روز مرہ معمولات جاننے کے لیے ایک دلچسپ سروے کا آغاز کیا جس کے حیران کن نتائج کسی کے لیے تو پریشانی کا باعث ہو سکتے ہیں تو کسی کے لیے مسحور کن ہوگا۔ ان اعداد و شمار سے قوموں کو اپنے طرز زندگی میں تبدیلی کے لیے نئے اہداف مقرر کرنے میں مدد ملے گی۔ سائنسی جریدے لینسٹ میں شائع ہونے والی عالمی ادارہ صحت (WHOO) کی ریسرچ کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ سست افراد کویت میں بستے ہیں جہاں کُل آبادی کے 67 فیصد افراد غیر متحرک زندگی بسر کر رہے ہیں جب کہ متحرک ترین افراد ہونے کا اعزاز یوگنڈا کے حصے میں آیا جہاں کُل آبادی کے صرف 5.5 فیصد افراد غیر متحرک شب و روز بِتا رہے ہیں۔ متحرک
آخر فورک میں یہ 4 کانٹے کیوں ہوتے ہیں؟ کچن میں کھانا پکانے کے لیے متعدد برتنوں یا ٹولز ک استعمال ہوتا ہے اور اکثر ان کے اندر کچھ طریقہ استعمال چھپے ہوتے ہیں۔ جس کی ایک بڑی مثال کانٹے یا یوں کہہ لیں کہ فورک کے نیچے موجود 3 یا 4 کانٹے یا پرانگ کی موجودگی ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ کسی کانٹے میں یہ پرانگ کیوں ہوتے ہیں اور کس طرح مددگار ثابت ہوسکتے ہیں؟ درحقیقت ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا بلکہ 15 ویں صدی میں اس سے ملتے جلتے فورک کا استعمال مغربی یورپ میں زرعی مقاصد کے لیے ہوا اور بتدریج یہ کچن کا حصہ بنا۔ آغاز میں فورک میں صرف 2 کانٹے ہوتے تھے مگر اس سے لوگوں کو کھانے مین کافی مشکل کا سامنا ہوتا تھا بلکہ اکثر وہ ہونٹ یا زبان میں گھس جاتا تھا۔ یہ بھی پڑھیں : رمضان میں شوق سے کھائی جانے والی پھینی کہاں سے آئی؟ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے فورک میں کانٹوں کی تعداد میں بڑھانے کے تجربات کیے گئے اور یہ تعداد 6 کر دی گئی۔ تاہم 19 ویں صدی کے آخر میں 4 کو سب سے زیادہ بہتر پایا گیا۔ ویسے تو تین کانٹے بھی فورک میں نظر آتے ہیں مگر وہ بہت کم ہوتے ہیں بلکہ اکثر سی فوڈ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
Comments
Post a Comment