ڈیمز؛ آبی ذخیروں کے بارے میں اہم معلومات اور دلچسپ حقائق

ہائیڈرو پاور دنیا کی بجلی کا لگ بھگ پانچواں حصہ فراہم کرتی ہے، اسی کی وجہ سے ہماری زرعی پیداوار کو بجلی ملتی ہے۔ فوٹو : فائل
 کسی نے ڈیم کے بارے میں کیا خوب کہا ہے کہ آبی ذخیرہ فطرت پر انسان کی فتح ہے۔

ڈیمز کے دو بڑے اور بنیادی کام یا مقاصد ہوتے ہیں۔ پہلا مقصد پانی کو ذخیرہ کرنا ہے جس کی مدد سے دریاؤں میں پانی کی طلب کے وقت اس کے بہاؤ کو متوازن بنانا ہے اور توانائی کی پیداوار کے لیے استعمال کرنا ہے، تاکہ دوسرے پیداواری کام انجام دیے جاسکیں۔ مثلاً اس سے بجلی بنائی جاسکے۔
اس کے علاوہ اس کا دوسرا کام وقت ضرورت اس ذخیرہ شدہ پانی کی سطح کو اس کی ذخیرہ گاہ کے اندر اس حد تک بلند کرنا ہے تاکہ اس پانی کو مطلوبہ مقام تک بہ ذریعہ نہر یا کینال پہنچایا جائے۔ اس طرح ایک طرف تو یہ پانی نہر کے ذریعے مطلوبہ جگہ تک پہنچ جائے گا اور ساتھ ہی یہ اس حد تک بلند سطح پر پہنچ جائے گا جس کے بعد اس کو توانائی پیدا کرنے کے لیے حسب منشا استعمال کیا جاسکے یعنی ریزروائر کی سطح اور دریا کے نچلے بہاؤ کے درمیان بلندی کو کم کیا جاسکے۔
پانی کے ذخیرے کی تخلیق اور اس کا بالائی حصہ ڈیمز میں بجلی کو جنریٹ کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ہائیڈرو پاور دنیا کی بجلی کا لگ بھگ پانچواں حصہ فراہم کرتی ہے، اسی کی وجہ سے ہماری زرعی پیداوار کو بجلی ملتی ہے، ہماری صنعتوں کو بھی اسی کی وجہ سے بجلی فراہم ہوتی ہے، اور پھر ہمارے گھروں کو بھی بجلی فراہم ہونے کا یہی ایک ذریعہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دریاؤں میں پانی کے بہاؤ اور اتار چڑھاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے ہمیں اسی بجلی کے ذریعے معاونت ملتی ہے۔اس کے علاوہ بھی یہ ڈیمز مختلف دوسرے کاموں میں ہماری مدد کرتے ہیں جیسے: فشریز کے کاموں کے لیے مدد کرنا اور بوٹنگ وغیرہ میں بھی اس کی مدد حاصل کرنا۔
٭ڈیمز کی تاریخ: دنیا کی تاریخ میں ابتدائی اور قدیم ترین ڈیمز جن کے آثار بھی ملتے ہیں، یہ 3,000 قبل مسیح میں تعمیر کیے گئے تھے۔ یہ آج کے دور جدید کے اردن میں جاوا شہر میں تعمیر کیے گئے تھے۔ اس ڈیم یا پانی کے سسٹم میں ایک 200 میٹر چوڑا ڈیم یا پشتہ شامل ہے جو ایک نہر کے ذریعے پانی کو دس چھوٹے چھوٹے ریزروائرز کو منتقل کرتا تھا۔ اس میں پانی ایک بلند چٹان سے کافی زور کے ساتھ گرتا تھا اور نیچے زمین پر بنے ہوئے ڈیمز کے ذریعے اسٹور ہونے کے بعد آگے جاتا تھا۔ ان میں سب سے بڑا ڈیم چار میٹر بلند اور 80 میٹر طویل تھا۔
اس کے کوئی 400 سال بعد غالباً پہلے اہراموں کے وقت کے قریب مصری معماروں نے Sadd el–Kafra تعمیر کیا جسے Dam of the Pagans بھی کہا جاتا تھا، یہ ڈیم قاہرہ کے قریب موسمی چشمے کے آر پار تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ ریت، بجری اور چٹانی پتھروں کا سکڑا سمٹا ہوا ڈھیر 14 میٹر بلند اور 113 میٹرز طویل تھا جسے 17,000 کٹے ہوئے پتھروں سے اس طرح سہارا دیا گیا تھا کہ جیسے ایک پشتے کو دیا جاتا ہے۔ پھر غالباً تعمیر کے ایک عشرے بعد یہ ڈیم جزوی طور پر بہ گیا اور اس کی مرمت بھی نہیں کی گئی۔ یہ ناکام ڈیم اصل میں مقامی آبادیوں کو پانی فراہم کرنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔
دریائے نیل سے آنے والے سیلاب ویسے ہی اس دریا کے پانی کو دور دور تک پھیلادیتے تھے، اس لیے مصر کے کاشت کاروں کو نہ ڈیمز کی ضرورت پڑتی تھی اور نہ ہی ایسے اسٹور شدہ پانی کی، چناں چہ یہ ڈیم ان کے لیے کسی کام کے ثابت نہ ہوسکے۔
پہلے میلینیم (قبل مسیح) کے اواخر تک بحیرہ روم کے اطراف میں چٹانی اور دیگر پتھروں کے ڈیمز تعمیر کیے گئے، یہ سب ڈیمز مشرق وسطیٰ، چین اور وسطی امریکا میں تعمیر ہوئے تھے۔ لیکن رومی انجنیئرز کے تعمیر کردہ ڈیمز میں ان کی ہنرمندی بہت نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے۔ ان میں سب سے متاثر کن رومی ڈیم آج بھی اسپین میں موجود ہے جو مور عہد سے لے کر آج تک چلا آرہا ہے۔
ایک اور 46 میٹر بلند پتھریلا ڈیم جو Alicante کے قریب بنایا گیا تھا اس کی تعمیر 1580 میں شروع ہوئی تھی اور یہ لگ بھگ 14  برسوں میں مکمل ہوا تھا، یہ ڈیم کوئی معمولی نہیں تھا، بل کہ یہ دنیا کا بلند ترین ڈیم تھا جو کم و بیش تین صدیوں تک دنیا کا سب سے بلند ڈیم شمار ہوتا رہا۔
٭جنوبی ایشیا میں ڈیمز کی تعمیر کی ایک طویل تاریخ ہے جہاں سری لنکا کے شہروں میں چوتھی صدی قبل مسیح میں طویل اور لمبے پشتے تعمیر کیے گئے تھے۔ ان ابتدائی پشتوں میں سے 460 عیسوی میں 34 میٹر بلند ڈیم تعمیر کیے گئے تھے جب کہ ایک میلینیم سے بھی زیادہ عرصے بعد دنیا کا بلند ترین ڈیم تعمیر کیا گیا تھا۔
شاہ پرکارما بابو بارھویں صدی کا ایک سنہالی حکم راں تھا جو ایک غارت گر کے طور پر مشہور تھا۔ اس نے 4,000 سے زیادہ ڈیم تعمیر کرائے تھے۔اس نے ایک پتھریلا پشتہ پندرہ میٹر کی بلندی تک تعمیر کرایا تھا جس کی لمبائی لگ بھگ14 کلو میٹر تھی۔ اس کے حجم کے برابر کوئی دوسرا ڈیم نہیں تھا۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ

Comments

Popular posts from this blog

7 Sky names and colours in urdu

Laziest countries in the world detail in urdu

Information about Fork ...